4. مقتولہ کے شوہر نے اُنہیں اپنی کہانی سنائی، ”مَیں اپنی داشتہ کے ساتھ جِبعہ میں آ ٹھہرا جو بن یمینیوں کے علاقے میں ہے۔ ہم وہاں رات گزارنا چاہتے تھے۔
5. یہ دیکھ کر شہر کے مردوں نے میرے میزبان کے گھر کو گھیر لیا تاکہ مجھے قتل کریں۔ مَیں تو بچ گیا، لیکن میری داشتہ سے اِتنی زیادتی ہوئی کہ وہ مر گئی۔
6. یہ دیکھ کر مَیں نے اُس کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے یہ ٹکڑے اسرائیل کی میراث کی ہر جگہ بھیج دیئے تاکہ ہر ایک کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے ملک میں کتنا گھنونا جرم سرزد ہوا ہے۔
7. اِس پر آپ سب یہاں جمع ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے مردو، اب لازم ہے کہ آپ ایک دوسرے سے مشورہ کر کے فیصلہ کریں کہ کیا کرنا چاہئے۔“
8. تمام مرد ایک دل ہو کر کھڑے ہوئے۔ سب کا فیصلہ تھا، ”ہم میں سے کوئی بھی اپنے گھر واپس نہیں جائے گا
9. جب تک جِبعہ کو مناسب سزا نہ دی جائے۔ لازم ہے کہ ہم فوراً شہر پر حملہ کریں اور اِس کے لئے قرعہ ڈال کر رب سے ہدایت لیں۔
38-39. پھر منصوبے کے مطابق آگ لگا کر دھوئیں کا بڑا بادل پیدا کیا تاکہ بھاگنے والے اسرائیلیوں کو اشارہ مل جائے کہ وہ مُڑ کر بن یمینیوں کا مقابلہ کریں۔اُس وقت تک بن یمینیوں نے تقریباً 30 اسرائیلیوں کو مار ڈالا تھا، اور اُن کا خیال تھا کہ ہم اُنہیں پہلے کی طرح شکست دے رہے ہیں۔
40. اچانک اُن کے پیچھے دھوئیں کا بادل آسمان کی طرف اُٹھنے لگا۔ جب بن یمینیوں نے مُڑ کر دیکھا کہ شہر کے کونے کونے سے دھواں نکل رہا ہے
41. تو اسرائیل کے مرد رُک گئے اور پلٹ کر اُن کا سامنا کرنے لگے۔بن یمینی سخت گھبرا گئے، کیونکہ اُنہوں نے جان لیا کہ ہم تباہ ہو گئے ہیں۔
42-43. تب اُنہوں نے مشرق کے ریگستان کی طرف فرار ہونے کی کوشش کی۔ لیکن اب وہ مرد بھی اُن کا تعاقب کرنے لگے جنہوں نے گھات میں بیٹھ کر جِبعہ پر حملہ کیا تھا۔ یوں اسرائیلیوں نے مفروروں کو گھیر کر مار ڈالا۔
44. اُس وقت بن یمین کے 18,000 تجربہ کار فوجی ہلاک ہوئے۔