24. لیکن جب وہ شہر کے قریب پہنچے
25. تو بن یمینی پہلے کی طرح شہر سے نکل کر اُن پر ٹوٹ پڑے۔ اُس دن تلوار سے لیس 18,000 اسرائیلی شہید ہو گئے۔
26. پھر اسرائیل کا پورا لشکر بیت ایل چلا گیا۔ وہاں وہ شام تک رب کے حضور روتے اور روزہ رکھتے رہے۔ اُنہوں نے رب کو بھسم ہونے والی قربانیاں اور سلامتی کی قربانیاں پیش کر کے
27. اُس سے دریافت کیا کہ ہم کیا کریں۔ (اُس وقت اللہ کے عہد کا صندوق بیت ایل میں تھا
28. جہاں فینحاس بن اِلی عزر بن ہارون امام تھا۔) اسرائیلیوں نے پوچھا، ”کیا ہم ایک اَور مرتبہ اپنے بن یمینی بھائیوں سے لڑنے جائیں یا اِس سے باز آئیں؟“ رب نے جواب دیا، ”اُن پر حملہ کرو، کیونکہ کل ہی مَیں اُنہیں تمہارے حوالے کر دوں گا۔“
29. اِس دفعہ کچھ اسرائیلی جِبعہ کے ارد گرد گھات میں بیٹھ گئے۔
30. باقی افراد پہلے دو دنوں کی سی ترتیب کے مطابق لڑنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔
31. بن یمینی دوبارہ شہر سے نکل کر اُن پر ٹوٹ پڑے۔ جو راستے بیت ایل اور جِبعہ کی طرف لے جاتے ہیں اُن پر اور کھلے میدان میں اُنہوں نے تقریباً 30 اسرائیلیوں کو مار ڈالا۔ یوں لڑتے لڑتے وہ شہر سے دُور ہوتے گئے۔
32. وہ پکارے، ”اب ہم اُنہیں پہلی دو مرتبہ کی طرح شکست دیں گے!“لیکن اسرائیلیوں نے منصوبہ باندھ لیا تھا، ”ہم اُن کے آگے آگے بھاگتے ہوئے اُنہیں شہر سے دُور راستوں پر کھینچ لیں گے۔“
33. یوں وہ بھاگنے لگے اور بن یمینی اُن کے پیچھے پڑ گئے۔ لیکن بعل تمر کے قریب اسرائیلی رُک کر مُڑ گئے اور اُن کا سامنا کرنے لگے۔ اب باقی اسرائیلی جو جِبع کے ارد گرد اور کھلے میدان میں گھات میں بیٹھے تھے اپنی چھپنے کی جگہوں سے نکل آئے۔
34. اچانک جِبعہ کے بن یمینیوں کو 10,000 بہترین فوجیوں کا سامنا کرنا پڑا، اُن مردوں کا جو پورے اسرائیل سے چنے گئے تھے۔ بن یمینی اُن سے خوب لڑنے لگے، لیکن اُن کی آنکھیں ابھی اِس بات کے لئے بند تھیں کہ اُن کا انجام قریب آ گیا ہے۔
35. اُس دن اسرائیلیوں نے رب کی مدد سے فتح پا کر تلوار سے لیس 25,100 بن یمینی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
36. تب بن یمینیوں نے جان لیا کہ دشمن ہم پر غالب آ گئے ہیں۔ کیونکہ اسرائیلی فوج نے اپنے بھاگ جانے سے اُنہیں جِبعہ سے دُور کھینچ لیا تھا تاکہ شہر کے ارد گرد گھات میں بیٹھے مردوں کو شہر پر حملہ کرنے کا موقع مہیا کریں۔
37. تب یہ مرد نکل کر شہر پر ٹوٹ پڑے اور تلوار سے تمام باشندوں کو مار ڈالا،
38-39. پھر منصوبے کے مطابق آگ لگا کر دھوئیں کا بڑا بادل پیدا کیا تاکہ بھاگنے والے اسرائیلیوں کو اشارہ مل جائے کہ وہ مُڑ کر بن یمینیوں کا مقابلہ کریں۔اُس وقت تک بن یمینیوں نے تقریباً 30 اسرائیلیوں کو مار ڈالا تھا، اور اُن کا خیال تھا کہ ہم اُنہیں پہلے کی طرح شکست دے رہے ہیں۔
40. اچانک اُن کے پیچھے دھوئیں کا بادل آسمان کی طرف اُٹھنے لگا۔ جب بن یمینیوں نے مُڑ کر دیکھا کہ شہر کے کونے کونے سے دھواں نکل رہا ہے
41. تو اسرائیل کے مرد رُک گئے اور پلٹ کر اُن کا سامنا کرنے لگے۔بن یمینی سخت گھبرا گئے، کیونکہ اُنہوں نے جان لیا کہ ہم تباہ ہو گئے ہیں۔