11. یہ سن کر اِفتاح جِلعاد کے بزرگوں کے ساتھ مِصفاہ گیا۔ وہاں لوگوں نے اُسے اپنا سردار اور فوج کا کمانڈر بنا لیا۔ مِصفاہ میں اُس نے رب کے حضور وہ تمام باتیں دہرائیں جن کا فیصلہ اُس نے بزرگوں کے ساتھ کیا تھا۔
12. پھر اِفتاح نے عمونی بادشاہ کے پاس اپنے قاصدوں کو بھیج کر پوچھا، ”ہمارا آپ سے کیا واسطہ کہ آپ ہم سے لڑنے آئے ہیں؟“
13. بادشاہ نے جواب دیا، ”جب اسرائیلی مصر سے نکلے تو اُنہوں نے ارنون، یبوق اور یردن کے دریاؤں کے درمیان کا علاقہ مجھ سے چھین لیا۔ اب اُسے جھگڑا کئے بغیر مجھے واپس کر دو۔“
14. پھر اِفتاح نے اپنے قاصدوں کو دوبارہ عمونی بادشاہ کے پاس بھیج کر
15. کہا، ”اسرائیل نے نہ تو موآبیوں سے اور نہ عمونیوں سے زمین چھینی۔
16. حقیقت یہ ہے کہ جب ہماری قوم مصر سے نکلی تو وہ ریگستان میں سے گزر کر بحرِ قُلزم اور وہاں سے ہو کر قادس پہنچ گئی۔
17. قادس سے اُنہوں نے ادوم کے بادشاہ کے پاس قاصد بھیج کر گزارش کی، ’ہمیں اپنے ملک میں سے گزرنے دیں۔‘ لیکن اُس نے انکار کیا۔ پھر اسرائیلیوں نے موآب کے بادشاہ سے درخواست کی، لیکن اُس نے بھی اپنے ملک میں سے گزرنے کی اجازت نہ دی۔ اِس پر ہماری قوم کچھ دیر کے لئے قادس میں رہی۔
18. آخرکار وہ ریگستان میں واپس جا کر ادوم اور موآب کے جنوب میں چلتے چلتے موآب کے مشرقی کنارے پر پہنچی، وہاں جہاں دریائے ارنون اُس کی سرحد ہے۔ لیکن وہ موآب کے علاقے میں داخل نہ ہوئے بلکہ دریا کے مشرق میں خیمہ زن ہوئے۔
19. وہاں سے اسرائیلیوں نے حسبون کے رہنے والے اموری بادشاہ سیحون کو پیغام بھجوایا، ’ہمیں اپنے ملک میں سے گزرنے دیں تاکہ ہم اپنے ملک میں داخل ہو سکیں۔‘
20. لیکن سیحون کو شک ہوا۔ اُسے یقین نہیں تھا کہ وہ ملک میں سے گزر کر آگے بڑھیں گے۔ اُس نے نہ صرف انکار کیا بلکہ اپنے فوجیوں کو جمع کر کے یہض شہر میں خیمہ زن ہوا اور اسرائیلیوں کے ساتھ لڑنے لگا۔
21. لیکن رب اسرائیل کے خدا نے سیحون اور اُس کے تمام فوجیوں کو اسرائیل کے حوالے کر دیا۔ اُنہوں نے اُنہیں شکست دے کر اموریوں کے پورے ملک پر قبضہ کر لیا۔
22. یہ تمام علاقہ جنوب میں دریائے ارنون سے لے کر شمال میں دریائے یبوق تک اور مشرق کے ریگستان سے لے کر مغرب میں دریائے یردن تک ہمارے قبضے میں آ گیا۔
23. دیکھیں، رب اسرائیل کے خدا نے اپنی قوم کے آگے آگے اموریوں کو نکال دیا ہے۔ تو پھر آپ کا اِس ملک پر قبضہ کرنے کا کیا حق ہے؟
24. آپ بھی سمجھتے ہیں کہ جسے آپ کے دیوتا کموس نے آپ کے آگے سے نکال دیا ہے اُس کے ملک پر قبضہ کرنے کا آپ کا حق ہے۔ اِسی طرح جسے رب ہمارے خدا نے ہمارے آگے آگے نکال دیا ہے اُس کے ملک پر قبضہ کرنے کا حق ہمارا ہے۔
25. کیا آپ اپنے آپ کو موآبی بادشاہ بلق بن صفور سے بہتر سمجھتے ہیں؟ اُس نے تو اسرائیل سے لڑنے بلکہ جھگڑنے تک کی ہمت نہ کی۔
26. اب اسرائیلی 300 سال سے حسبون اور عروعیر کے شہروں میں اُن کے گرد و نواح کی آبادیوں سمیت آباد ہیں اور اِسی طرح دریائے ارنون کے کنارے پر کے شہروں میں۔ آپ نے اِس دوران اِن جگہوں پر قبضہ کیوں نہ کیا؟
27. چنانچہ مَیں نے آپ سے غلط سلوک نہیں کیا بلکہ آپ ہی میرے ساتھ غلط سلوک کر رہے ہیں۔ کیونکہ مجھ سے جنگ چھیڑنا غلط ہے۔ رب جو منصف ہے وہی آج اسرائیل اور عمون کے جھگڑے کا فیصلہ کرے!“