15. کہ آپ اپنے باپ دادا کی تاریخی دستاویزات سے یروشلم کے بارے میں معلومات حاصل کریں، کیونکہ اُن میں اِس بات کی تصدیق ملے گی کہ یہ شہر ماضی میں سرکش رہا۔ حقیقت میں شہر کو اِسی لئے تباہ کیا گیا کہ وہ بادشاہوں اور صوبوں کو تنگ کرتا رہا اور قدیم زمانے سے ہی بغاوت کا منبع رہا ہے۔
16. غرض ہم شہنشاہ کو اطلاع دیتے ہیں کہ اگر یروشلم کو دوبارہ تعمیر کیا جائے اور اُس کی فصیل تکمیل تک پہنچے تو دریائے فرات کے مغربی علاقے پر آپ کا قابو جاتا رہے گا۔“
17. شہنشاہ نے جواب میں لکھا،”مَیں یہ خط رحوم گورنر، شمسی میرمنشی اور سامریہ اور دریائے فرات کے مغرب میں رہنے والے اُن کے ہم خدمت افسروں کو لکھ رہا ہوں۔آپ کو سلام!
18. آپ کے خط کا ترجمہ میری موجودگی میں ہوا ہے اور اُسے میرے سامنے پڑھا گیا ہے۔
19. میرے حکم پر یروشلم کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ معلوم ہوا کہ واقعی یہ شہر قدیم زمانے سے بادشاہوں کی مخالفت کر کے سرکشی اور بغاوت کا منبع رہا ہے۔
20. نیز، یروشلم طاقت ور بادشاہوں کا دار الحکومت رہا ہے۔ اُن کی اِتنی طاقت تھی کہ دریائے فرات کے پورے مغر بی علاقے کو اُنہیں مختلف قسم کے ٹیکس اور خراج ادا کرنا پڑا۔
21. چنانچہ اب حکم دیں کہ یہ آدمی شہر کی تعمیر کرنے سے باز آئیں۔ جب تک مَیں خود حکم نہ دوں اُس وقت تک شہر کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
22. دھیان دیں کہ اِس حکم کی تکمیل میں سُستی نہ کی جائے، ایسا نہ ہو کہ شہنشاہ کو بڑا نقصان پہنچے۔“
23. جوں ہی خط کی کاپی رحوم، شمسی اور اُن کے ہم خدمت افسروں کو پڑھ کر سنائی گئی تو وہ یروشلم کے لئے روانہ ہوئے اور یہودیوں کو زبردستی کام جاری رکھنے سے روک دیا۔
24. چنانچہ یروشلم میں اللہ کے گھر کا تعمیری کام رُک گیا، اور وہ فارس کے بادشاہ دارا کی حکومت کے دوسرے سال تک رُکا رہا۔