11. اِس مرتبہ جادوگر موسیٰ کے سامنے کھڑے بھی نہ ہو سکے کیونکہ اُن کے جسموں پر بھی پھوڑے نکل آئے تھے۔ تمام مصریوں کا یہی حال تھا۔
12. لیکن رب نے فرعون کو ضدی بنائے رکھا، اِس لئے اُس نے موسیٰ اور ہارون کی نہ سنی۔ یوں ویسا ہی ہوا جیسا رب نے موسیٰ کو بتایا تھا۔
13. اِس کے بعد رب نے موسیٰ سے کہا، ”صبح سویرے اُٹھ اور فرعون کے سامنے کھڑے ہو کر اُسے بتا کہ رب عبرانیوں کا خدا فرماتا ہے، ’میری قوم کو جانے دے تاکہ وہ میری عبادت کر سکیں۔
14. ورنہ مَیں اپنی تمام آفتیں تجھ پر، تیرے عہدیداروں پر اور تیری قوم پر آنے دوں گا۔ پھر تُو جان لے گا کہ تمام دنیا میں مجھ جیسا کوئی نہیں ہے۔
15. اگر مَیں چاہتا تو اپنی قدرت سے ایسی وبا پھیلا سکتا کہ تجھے اور تیری قوم کو دنیا سے مٹا دیا جاتا۔
16. لیکن مَیں نے تجھے اِس لئے برپا کیا ہے کہ تجھ پر اپنی قدرت کا اظہار کروں اور یوں تمام دنیا میں میرے نام کا پرچار کیا جائے۔
17. تُو ابھی تک اپنے آپ کو سرفراز کر کے میری قوم کے خلاف ہے اور اُنہیں جانے نہیں دیتا۔
18. اِس لئے کل مَیں اِسی وقت بھیانک قسم کے اولوں کا طوفان بھیج دوں گا۔ مصری قوم کی ابتدا سے لے کر آج تک مصر میں اولوں کا ایسا طوفان کبھی نہیں آیا ہو گا۔
19. اپنے بندوں کو ابھی بھیجنا تاکہ وہ تیرے مویشیوں کو اور کھیتوں میں پڑے تیرے مال کو لا کر محفوظ کر لیں۔ کیونکہ جو بھی کھلے میدان میں رہے گا وہ اولوں سے مر جائے گا، خواہ انسان ہو یا حیوان‘۔“
20. فرعون کے کچھ عہدیدار رب کا پیغام سن کر ڈر گئے اور بھاگ کر اپنے جانوروں اور غلاموں کو گھروں میں لے آئے۔
21. لیکن دوسروں نے رب کے پیغام کی پروا نہ کی۔ اُن کے جانور اور غلام باہر کھلے میدان میں رہے۔
22. رب نے موسیٰ سے کہا، ”اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بڑھا دے۔ پھر مصر کے تمام انسانوں، جانوروں اور کھیتوں کے پودوں پر اولے پڑیں گے۔“
23. موسیٰ نے اپنی لاٹھی آسمان کی طرف اُٹھائی تو رب نے ایک زبردست طوفان بھیج دیا۔ اولے پڑے، بجلی گری اور بادل گرجتے رہے۔
24. اولے پڑتے رہے اور بجلی چمکتی رہی۔ مصری قوم کی ابتدا سے لے کر اب تک ایسے خطرناک اولے کبھی نہیں پڑے تھے۔