19. جادوگروں نے فرعون سے کہا، ”اللہ کی قدرت نے یہ کیا ہے۔“ لیکن فرعون نے اُن کی نہ سنی۔ یوں رب کی بات درست نکلی۔
20. پھر رب نے موسیٰ سے کہا، ”جب فرعون صبح سویرے دریا پر جائے تو تُو اُس کے راستے میں کھڑا ہو جانا۔ اُسے کہنا کہ رب فرماتا ہے، ’میری قوم کو جانے دے تاکہ وہ میری عبادت کر سکیں۔
21. ورنہ مَیں تیرے اور تیرے عہدیداروں کے پاس، تیری قوم کے پاس اور تیرے گھروں میں کاٹنے والی مکھیاں بھیج دوں گا۔ مصریوں کے گھر مکھیوں سے بھر جائیں گے بلکہ جس زمین پر وہ کھڑے ہیں وہ بھی مکھیوں سے ڈھانکی جائے گی۔
22. لیکن اُس وقت مَیں اپنی قوم کے ساتھ جو جشن میں رہتی ہے فرق سلوک کروں گا۔ وہاں ایک بھی کاٹنے والی مکھی نہیں ہو گی۔ اِس طرح تجھے پتا لگے گا کہ اِس ملک میں مَیں ہی رب ہوں۔
23. مَیں اپنی قوم اور تیری قوم میں امتیاز کروں گا۔ کل ہی میری قدرت کا اظہار ہو گا‘۔“
24. رب نے ایسا ہی کیا۔ کاٹنے والی مکھیوں کے غول فرعون کے محل، اُس کے عہدیداروں کے گھروں اور پورے مصر میں پھیل گئے۔ ملک کا ستیاناس ہو گیا۔
25. پھر فرعون نے موسیٰ اور ہارون کو بُلا کر کہا، ”چلو، اِسی ملک میں اپنے خدا کو قربانیاں پیش کرو۔“
26. لیکن موسیٰ نے کہا، ”یہ مناسب نہیں ہے۔ جو قربانیاں ہم رب اپنے خدا کو پیش کریں گے وہ مصریوں کی نظر میں گھناؤنی ہیں۔ اگر ہم یہاں ایسا کریں تو کیا وہ ہمیں سنگسار نہیں کریں گے؟
27. اِس لئے لازم ہے کہ ہم تین دن کا سفر کر کے ریگستان میں ہی رب اپنے خدا کو قربانیاں پیش کریں جس طرح اُس نے ہمیں حکم بھی دیا ہے۔“
28. فرعون نے جواب دیا، ”ٹھیک ہے، مَیں تمہیں جانے دوں گا تاکہ تم ریگستان میں رب اپنے خدا کو قربانیاں پیش کرو۔ لیکن تمہیں زیادہ دُور نہیں جانا ہے۔ اور میرے لئے بھی دعا کرنا۔“
29. موسیٰ نے کہا، ”ٹھیک، مَیں جاتے ہی رب سے دعا کروں گا۔ کل ہی مکھیاں فرعون، اُس کے عہدیداروں اور اُس کی قوم سے دُور ہو جائیں گی۔ لیکن ہمیں دوبارہ فریب نہ دینا بلکہ ہمیں جانے دینا تاکہ ہم رب کو قربانیاں پیش کر سکیں۔“
30. پھر موسیٰ فرعون کے پاس سے چلا گیا اور رب سے دعا کی۔
31. رب نے موسیٰ کی دعا سنی۔ کاٹنے والی مکھیاں فرعون، اُس کے عہدیداروں اور اُس کی قوم سے دُور ہو گئیں۔ ایک بھی مکھی نہ رہی۔
32. لیکن فرعون پھر اکڑ گیا۔ اُس نے اسرائیلیوں کو جانے نہ دیا۔