15. پھر اسرائیلی نگران فرعون کے پاس گئے۔ اُنہوں نے شکایت کر کے کہا، ”آپ اپنے خادموں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے ہیں؟
16. ہمیں بھوسا نہیں دیا جا رہا اور ساتھ ساتھ یہ کہا گیا ہے کہ اُتنی اینٹیں بناؤ جتنی پہلے بناتے تھے۔ نتیجے میں ہمیں مارا پیٹا بھی جا رہا ہے حالانکہ ایسا کرنے میں آپ کے اپنے لوگ غلطی پر ہیں۔“
17. فرعون نے جواب دیا، ”تم لوگ سُست ہو، تم کام کرنا نہیں چاہتے۔ اِس لئے تم یہ جگہ چھوڑنا اور رب کو قربانیاں پیش کرنا چاہتے ہو۔
18. اب جاؤ، کام کرو۔ تمہیں بھوسا نہیں دیا جائے گا، لیکن خبردار! اُتنی ہی اینٹیں بناؤ جتنی پہلے بناتے تھے۔“
19. جب اسرائیلی نگرانوں کو بتایا گیا کہ اینٹوں کی مطلوبہ تعداد کم نہ کرو تو وہ سمجھ گئے کہ ہم پھنس گئے ہیں۔
20. فرعون کے محل سے نکل کر اُن کی ملاقات موسیٰ اور ہارون سے ہوئی جو اُن کے انتظار میں تھے۔
21. اُنہوں نے موسیٰ اور ہارون سے کہا، ”رب خود آپ کی عدالت کرے۔ کیونکہ آپ کے سبب سے فرعون اور اُس کے ملازموں کو ہم سے گھن آتی ہے۔ آپ نے اُنہیں ہمیں مار دینے کا موقع دے دیا ہے۔“
22. یہ سن کر موسیٰ رب کے پاس واپس آیا اور کہا، ”اے آقا، تُو نے اِس قوم سے ایسا بُرا سلوک کیوں کیا؟ کیا تُو نے اِسی مقصد سے مجھے یہاں بھیجا ہے؟
23. جب سے مَیں نے فرعون کے پاس جا کر اُسے تیری مرضی بتائی ہے وہ اسرائیلی قوم سے بُرا سلوک کر رہا ہے۔ اور تُو نے اب تک اُنہیں بچانے کا کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔“