5. اُس نے قربان گاہ کو اُٹھانے کے لئے چار کڑے بنا کر اُنہیں جنگلے کے چار کونوں پر لگایا۔
6. پھر اُس نے کیکر کی دو لکڑیاں بنا کر اُن پر پیتل چڑھایا
7. اور قربان گاہ کے دونوں طرف لگے اِن کڑوں میں ڈال دیں۔ یوں اُسے اُٹھایا جا سکتا تھا۔ قربان گاہ لکڑی کی تھی لیکن کھوکھلی تھی۔
8. بضلی ایل نے دھونے کا حوض اور اُس کا ڈھانچا بھی پیتل سے بنایا۔ اُس کا پیتل اُن عورتوں کے آئینوں سے ملا تھا جو ملاقات کے خیمے کے دروازے پر خدمت کرتی تھیں۔
9. پھر بضلی ایل نے صحن بنایا۔ اُس کی چاردیواری باریک کتان کے کپڑے سے بنائی گئی۔ چاردیواری کی لمبائی جنوب کی طرف 150 فٹ تھی۔
10. کپڑے کو لگانے کے لئے چاندی کی ہکیں، پٹیاں، لکڑی کے کھمبے اور اُن کے پائے بنائے گئے۔
11. چاردیواری شمال کی طرف بھی اِسی طرح بنائی گئی۔
12. خیمے کے پیچھے مغرب کی طرف چاردیواری کی چوڑائی 75 فٹ تھی۔ کپڑے کے علاوہ اُس کے لئے 10 کھمبے، 10 پائے اور کپڑا لگانے کے لئے چاندی کی ہکیں اور پٹیاں بنائی گئیں۔
13. سامنے، مشرق کی طرف جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے چاردیواری کی چوڑائی بھی 75 فٹ تھی۔
16. چاردیواری کے تمام پردوں کے لئے باریک کتان استعمال ہوا۔
17. کھمبے پیتل کے پائیوں پر کھڑے تھے، اور پردے چاندی کی ہکوں اور پٹیوں سے کھمبوں کے ساتھ لگے تھے۔ کھمبوں کے اوپر کے سِروں پر چاندی چڑھائی گئی تھی۔ صحن کے تمام کھمبوں پر چاندی کی پٹیاں لگی تھیں۔
18. چاردیواری کے دروازے کا پردہ نیلے، ارغوانی اور قرمزی رنگ کے دھاگے اور باریک کتان سے بنایا گیا، اور اُس پر کڑھائی کا کام کیا گیا۔ وہ 30 فٹ چوڑا اور چاردیواری کے دوسرے پردوں کی طرح ساڑھے سات فٹ اونچا تھا۔
19. اُس کے چار کھمبے اور پیتل کے چار پائے تھے۔ اُس کی ہکیں اور پٹیاں چاندی کی تھیں، اور کھمبوں کے اوپر کے سِروں پر چاندی چڑھائی گئی تھی۔
20. خیمے اور چاردیواری کی تمام میخیں پیتل کی تھیں۔