1. یہوداہ کے بادشاہ یہویاکین کی جلاوطنی کے ساتویں سال میں اسرائیلی قوم کے کچھ بزرگ میرے پاس آئے تاکہ رب سے کچھ دریافت کریں۔ پانچویں مہینے کا دسواں دن تھا۔ وہ میرے سامنے بیٹھ گئے۔
2. تب رب مجھ سے ہم کلام ہوا،
3. ”اے آدم زاد، اسرائیل کے بزرگوں کو بتا،’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ کیا تم مجھ سے دریافت کرنے آئے ہو؟ میری حیات کی قَسم، مَیں تمہیں کوئی جواب نہیں دوں گا! یہ رب قادرِ مطلق کا فرمان ہے۔‘
4. اے آدم زاد، کیا تُو اُن کی عدالت کرنے کے لئے تیار ہے؟ پھر اُن کی عدالت کر! اُنہیں اُن کے باپ دادا کی قابلِ گھن حرکتوں کا احساس دلا۔
5. اُنہیں بتا، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ اسرائیلی قوم کو چنتے وقت مَیں نے اپنا ہاتھ اُٹھا کر اُس سے قَسم کھائی۔ ملکِ مصر میں ہی مَیں نے اپنے آپ کو اُن پر ظاہر کیا اور قَسم کھا کر کہا کہ مَیں رب تمہارا خدا ہوں۔
6. یہ میرا اٹل وعدہ ہے کہ مَیں تمہیں مصر سے نکال کر ایک ملک میں پہنچا دوں گا جس کا جائزہ مَیں تمہاری خاطر لے چکا ہوں۔ یہ ملک دیگر تمام ممالک سے کہیں زیادہ خوب صورت ہے، اور اِس میں دودھ اور شہد کی کثرت ہے۔
7. اُس وقت مَیں نے اسرائیلیوں سے کہا، ”ہر ایک اپنے گھنونے بُتوں کو پھینک دے! مصر کے دیوتاؤں سے لپٹے نہ رہو، کیونکہ اُن سے تم اپنے آپ کو ناپاک کر رہے ہو۔ مَیں رب تمہارا خدا ہوں۔“
8. لیکن وہ مجھ سے باغی ہوئے اور میری سننے کے لئے تیار نہ تھے۔ کسی نے بھی اپنے بُتوں کو نہ پھینکا بلکہ وہ اِن گھنونی چیزوں سے لپٹے رہے اور مصری دیوتاؤں کو ترک نہ کیا۔ یہ دیکھ کر مَیں وہیں مصر میں اپنا غضب اُن پر نازل کرنا چاہتا تھا۔ اُسی وقت مَیں اپنا غصہ اُن پر اُتارنا چاہتا تھا۔
9. لیکن مَیں باز رہا، کیونکہ مَیں نہیں چاہتا تھا کہ جن اقوام کے درمیان اسرائیلی رہتے تھے اُن کے سامنے میرے نام کی بےحرمتی ہو جائے۔ کیونکہ اُن قوموں کی موجودگی میں ہی مَیں نے اپنے آپ کو اسرائیلیوں پر ظاہر کر کے وعدہ کیا تھا کہ مَیں تمہیں مصر سے نکال لاؤں گا۔
10. چنانچہ مَیں اُنہیں مصر سے نکال کر ریگستان میں لایا۔
11. وہاں مَیں نے اُنہیں اپنی ہدایات دیں، وہ احکام جن کی پیروی کرنے سے انسان جیتا رہتا ہے۔
12. مَیں نے اُنہیں سبت کا دن بھی عطا کیا۔ مَیں چاہتا تھا کہ آرام کا یہ دن میرے اُن کے ساتھ عہد کا نشان ہو، کہ اِس سے لوگ جان لیں کہ مَیں رب ہی اُنہیں مُقدّس بناتا ہوں۔
13. لیکن ریگستان میں بھی اسرائیلی مجھ سے باغی ہوئے۔ اُنہوں نے میری ہدایات کے مطابق زندگی نہ گزاری بلکہ میرے احکام کو مسترد کر دیا، حالانکہ انسان اُن کی پیروی کرنے سے ہی جیتا رہتا ہے۔ اُنہوں نے سبت کی بھی بڑی بےحرمتی کی۔ یہ دیکھ کر مَیں اپنا غضب اُن پر نازل کر کے اُنہیں وہیں ریگستان میں ہلاک کرنا چاہتا تھا۔
14. تاہم مَیں باز رہا، کیونکہ مَیں نہیں چاہتا تھا کہ اُن اقوام کے سامنے میرے نام کی بےحرمتی ہو جائے جن کے دیکھتے دیکھتے مَیں اسرائیلیوں کو مصر سے نکال لایا تھا۔
15. چنانچہ مَیں نے یہ کرنے کے بجائے اپنا ہاتھ اُٹھا کر قَسم کھائی، ”مَیں تمہیں اُس ملک میں نہیں لے جاؤں گا جو مَیں نے تمہارے لئے مقرر کیا تھا، حالانکہ اُس میں دودھ اور شہد کی کثرت ہے اور وہ دیگر تمام ممالک کی نسبت کہیں زیادہ خوب صورت ہے۔
16. کیونکہ تم نے میری ہدایات کو رد کر کے میرے احکام کے مطابق زندگی نہ گزاری بلکہ سبت کے دن کی بھی بےحرمتی کی۔ ابھی تک تمہارے دل بُتوں سے لپٹے رہتے ہیں۔“
17. لیکن ایک بار پھر مَیں نے اُن پر ترس کھایا۔ نہ مَیں نے اُنہیں تباہ کیا، نہ پوری قوم کو ریگستان میں مٹا دیا۔