10. اُنہیں جواب دے، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ اِس پیغام کا تعلق یروشلم کے رئیس اور شہر میں بسنے والے تمام اسرائیلیوں سے ہے۔‘
11. اُنہیں بتا، ’مَیں تمہیں آگاہ کرنے کا نشان ہوں۔ جو کچھ مَیں نے کیا وہ تمہارے ساتھ ہو جائے گا۔ تم قیدی بن کر جلاوطن ہو جاؤ گے۔
12. جو رئیس تمہارے درمیان ہے وہ اندھیرے میں اپنا سامان کندھے پر اُٹھا کر چلا جائے گا۔ دیوار میں سوراخ بنایا جائے گا تاکہ وہ نکل سکے۔ وہ اپنا منہ ڈھانپ لے گا تاکہ ملک کو نہ دیکھ سکے۔
13. لیکن مَیں اپنا جال اُس پر ڈال دوں گا، اور وہ میرے پھندے میں پھنس جائے گا۔ مَیں اُسے بابل لاؤں گا جو بابلیوں کے ملک میں ہے، اگرچہ وہ اُسے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھے گا۔ وہیں وہ وفات پائے گا۔
14. جتنے بھی ملازم اور دستے اُس کے ارد گرد ہوں گے اُن سب کو مَیں ہَوا میں اُڑا کر چاروں طرف منتشر کر دوں گا۔ اپنی تلوار کو میان سے کھینچ کر مَیں اُن کے پیچھے پڑا رہوں گا۔
15. جب مَیں اُنہیں دیگر اقوام اور مختلف ممالک میں منتشر کروں گا تو وہ جان لیں گے کہ مَیں ہی رب ہوں۔
16. لیکن مَیں اُن میں سے چند ایک کو بچا کر تلوار، کال اور مہلک وبا کی زد میں نہیں آنے دوں گا۔ کیونکہ لازم ہے کہ جن اقوام میں بھی وہ جا بسیں وہاں وہ اپنی مکروہ حرکتیں بیان کریں۔ تب یہ اقوام بھی جان لیں گی کہ مَیں ہی رب ہوں‘۔“
17. رب مجھ سے ہم کلام ہوا،
18. ”اے آدم زاد، کھانا کھاتے وقت اپنی روٹی کو لرزتے ہوئے کھا اور اپنے پانی کو پریشانی کے مارے تھرتھراتے ہوئے پی۔
19. ساتھ ساتھ اُمّت کو بتا، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ ملکِ اسرائیل کے شہر یروشلم کے باشندے پریشانی میں اپنا کھانا کھائیں گے اور دہشت زدہ حالت میں اپنا پانی پئیں گے، کیونکہ اُن کا ملک تباہ اور ہر برکت سے خالی ہو جائے گا۔ اور سبب اُس کے باشندوں کا ظلم و تشدد ہو گا۔
20. جن شہروں میں لوگ اب تک آباد ہیں وہ برباد ہو جائیں گے، ملک ویران و سنسان ہو جائے گا۔ تب تم جان لو گے کہ مَیں ہی رب ہوں‘۔“
21. رب مجھ سے ہم کلام ہوا،
22. ”اے آدم زاد، یہ کیسی کہاوت ہے جو ملکِ اسرائیل میں عام ہو گئی ہے؟ لوگ کہتے ہیں، ’جوں جوں دن گزرتے جاتے ہیں توں توں ہر رویا غلط ثابت ہوتی جاتی ہے۔‘
23. جواب میں اُنہیں بتا، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ مَیں اِس کہاوت کو ختم کروں گا، آئندہ یہ اسرائیل میں استعمال نہیں ہو گی۔‘ اُنہیں یہ بھی بتا، ’وہ وقت قریب ہی ہے جب ہر رویا پوری ہو جائے گی۔