13. جب مَیں کہتا ہوں، ’میرا بستر مجھے تسلی دے، سونے سے میرا غم ہلکا ہو جائے‘
14. تو تُو مجھے ہول ناک خوابوں سے ہمت ہارنے دیتا، رویاؤں سے مجھے دہشت کھلاتا ہے۔
15. میری اِتنی بُری حالت ہو گئی ہے کہ سوچتا ہوں، کاش کوئی میرا گلا گھونٹ کر مجھے مار ڈالے، کاش مَیں زندہ نہ رہوں بلکہ دم چھوڑوں۔
16. مَیں نے زندگی کو رد کر دیا ہے، اب مَیں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہوں گا۔ مجھے چھوڑ، کیونکہ میرے دن دم بھر کے ہی ہیں۔
17. انسان کیا ہے کہ تُو اُس کی اِتنی قدر کرے، اُس پر اِتنا دھیان دے؟
18. وہ اِتنا اہم تو نہیں ہے کہ تُو ہر صبح اُس کا معائنہ کرے، ہر لمحہ اُس کی جانچ پڑتال کرے۔
19. کیا تُو مجھے تکنے سے کبھی نہیں باز آئے گا؟ کیا تُو مجھے اِتنا سکون بھی نہیں دے گا کہ پل بھر کے لئے تھوک نگلوں؟
20. اے انسان کے پہرے دار، اگر مجھ سے غلطی ہوئی بھی تو اِس سے مَیں نے تیرا کیا نقصان کیا؟ تُو نے مجھے اپنے غضب کا نشانہ کیوں بنایا؟ مَیں تیرے لئے بوجھ کیوں بن گیا ہوں؟
21. تُو میرا جرم معاف کیوں نہیں کرتا، میرا قصور درگزر کیوں نہیں کرتا؟ کیونکہ جلد ہی مَیں خاک ہو جاؤں گا۔ اگر تُو مجھے تلاش بھی کرے تو نہیں ملوں گا، کیونکہ مَیں ہوں گا نہیں۔“