1. ایوب نے اپنی بات جاری رکھ کر کہا،
2. ”کاش مَیں دوبارہ ماضی کے وہ دن گزار سکوں جب اللہ میری دیکھ بھال کرتا تھا،
3. جب اُس کی شمع میرے سر کے اوپر چمکتی رہی اور مَیں اُس کی روشنی کی مدد سے اندھیرے میں چلتا تھا۔
4. اُس وقت میری جوانی عروج پر تھی اور میرا خیمہ اللہ کے سائے میں رہتا تھا۔
5. قادرِ مطلق میرے ساتھ تھا، اور مَیں اپنے بیٹوں سے گھرا رہتا تھا۔
6. کثرت کے باعث میرے قدم دہی سے دھوئے رہتے اور چٹان سے تیل کی ندیاں پھوٹ کر نکلتی تھیں۔
7. جب کبھی مَیں شہر کے دروازے سے نکل کر چوک میں اپنی کرسی پر بیٹھ جاتا
8. تو جوان آدمی مجھے دیکھ کر پیچھے ہٹ کر چھپ جاتے، بزرگ اُٹھ کر کھڑے رہتے،
9. رئیس بولنے سے باز آ کر منہ پر ہاتھ رکھتے،
10. شرفا کی آواز دب جاتی اور اُن کی زبان تالو سے چپک جاتی تھی۔
11. جس کان نے میری باتیں سنیں اُس نے مجھے مبارک کہا، جس آنکھ نے مجھے دیکھا اُس نے میرے حق میں گواہی دی۔
12. کیونکہ جو مصیبت میں آ کر آواز دیتا اُسے مَیں بچاتا، بےسہارا یتیم کو چھٹکارا دیتا تھا۔
13. تباہ ہونے والے مجھے برکت دیتے تھے۔ میرے باعث بیواؤں کے دلوں سے خوشی کے نعرے اُبھر آتے تھے۔
14. مَیں راست بازی سے ملبّس اور راست بازی مجھ سے ملبّس رہتی تھی، انصاف میرا چوغہ اور پگڑی تھا۔