14. بےشک مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ مَیں اُسی راہ پر چلتا ہوں جسے یہ بدعت قرار دیتے ہیں۔ لیکن مَیں اپنے باپ دادا کے خدا کی پرستش کرتا ہوں۔ جو کچھ بھی شریعت اور نبیوں کے صحیفوں میں لکھا ہے اُسے مَیں مانتا ہوں۔
15. اور مَیں اللہ پر وہی اُمید رکھتا ہوں جو یہ بھی رکھتے ہیں، کہ قیامت کا ایک دن ہو گا جب وہ راست بازوں اور ناراستوں کو مُردوں میں سے زندہ کر دے گا۔
16. اِس لئے میری پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہر وقت میرا ضمیر اللہ اور انسان کے سامنے صاف ہو۔
17. کئی سالوں کے بعد مَیں یروشلم واپس آیا۔ میرے پاس قوم کے غریبوں کے لئے خیرات تھی اور مَیں بیت المُقدّس میں قربانیاں بھی پیش کرنا چاہتا تھا۔
18. مجھ پر الزام لگانے والوں نے مجھے بیت المُقدّس میں دیکھا جب مَیں طہارت کی رسومات ادا کر رہا تھا۔ اُس وقت نہ کوئی ہجوم تھا، نہ فساد۔
19. لیکن صوبہ آسیہ کے کچھ یہودی وہاں تھے۔ اگر اُنہیں میرے خلاف کوئی شکایت ہے تو اُنہیں ہی یہاں حاضر ہو کر مجھ پر الزام لگانا چاہئے۔
20. یا یہ لوگ خود بتائیں کہ جب مَیں یہودی عدالتِ عالیہ کے سامنے کھڑا تھا تو اُنہوں نے میرا کیا جرم معلوم کیا۔
21. صرف یہ ایک جرم ہو سکتا ہے کہ مَیں نے اُس وقت اُن کے حضور پکار کر یہ بات بیان کی، ’آج مجھ پر اِس لئے الزام لگایا جا رہا ہے کہ مَیں ایمان رکھتا ہوں کہ مُردے جی اُٹھیں گے‘۔“
22. فیلکس نے جو عیسیٰ کی راہ سے خوب واقف تھا مقدمہ ملتوی کر دیا۔ اُس نے کہا، ”جب کمانڈر لوسیاس آئیں گے پھر مَیں فیصلہ دوں گا۔“
23. اُس نے پولس پر مقرر افسر کو حکم دیا کہ وہ اُس کی پہرا داری تو کرے لیکن اُسے کچھ سہولیات بھی دے اور اُس کے عزیزوں کو اُس سے ملنے اور اُس کی خدمت کرنے سے نہ روکے۔
24. کچھ دنوں کے بعد فیلکس اپنی اہلیہ دروسلہ کے ہمراہ واپس آیا۔ دروسلہ یہودی تھی۔ پولس کو بُلا کر اُنہوں نے عیسیٰ پر ایمان کے بارے میں اُس کی باتیں سنیں۔
25. لیکن جب راست بازی، ضبطِ نفس اور آنے والی عدالت کے مضامین چھڑ گئے تو فیلکس نے گھبرا کر اُس کی بات کاٹی، ”فی الحال کافی ہے۔ اب اجازت ہے، جب میرے پاس وقت ہو گا مَیں آپ کو بُلا لوں گا۔“
26. ساتھ ساتھ وہ یہ اُمید بھی رکھتا تھا کہ پولس رشوت دے گا، اِس لئے وہ کئی بار اُسے بُلا کر اُس سے بات کرتا رہا۔