3. ”مَیں یہودی ہوں اور کلِکیہ کے شہر ترسس میں پیدا ہوا۔ لیکن مَیں نے اِسی شہر یروشلم میں پرورش پائی اور جملی ایل کے زیرِ نگرانی تعلیم حاصل کی۔ اُنہوں نے مجھے تفصیل اور احتیاط سے ہمارے باپ دادا کی شریعت سکھائی۔ اُس وقت مَیں بھی آپ کی طرح اللہ کے لئے سرگرم تھا۔
4. اِس لئے مَیں نے اِس نئی راہ کے پیروکاروں کا پیچھا کیا اور مردوں اور خواتیں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈلوا دیا یہاں تک کہ مروا بھی دیا۔
5. امامِ اعظم اور یہودی عدالتِ عالیہ کے ممبران اِس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ اُن ہی سے مجھے دمشق میں رہنے والے یہودی بھائیوں کے لئے سفارشی خط مل گئے تاکہ مَیں وہاں بھی جا کر اِس نئے فرقے کے لوگوں کو گرفتار کر کے سزا دینے کے لئے یروشلم لاؤں۔
6. مَیں اِس مقصد کے لئے دمشق کے قریب پہنچ گیا تھا کہ اچانک آسمان کی طرف سے ایک تیز روشنی میرے گرد چمکی۔
7. مَیں زمین پر گر پڑا تو ایک آواز سنائی دی، ’ساؤل، ساؤل، تُو مجھے کیوں ستاتا ہے؟‘
8. مَیں نے پوچھا، ’خداوند، آپ کون ہیں؟‘ آواز نے جواب دیا، ’مَیں عیسیٰ ناصری ہوں جسے تُو ستاتا ہے۔‘
9. میرے ہم سفروں نے روشنی کو تو دیکھا، لیکن مجھ سے مخاطب ہونے والے کی آواز نہ سنی۔
10. مَیں نے پوچھا، ’خداوند، مَیں کیا کروں؟‘ خداوند نے جواب دیا، ’اُٹھ کر دمشق میں جا۔ وہاں تجھے وہ سارا کام بتایا جائے گا جو اللہ تیرے ذمے لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘
11. روشنی کی تیزی نے مجھے اندھا کر دیا تھا، اِس لئے میرے ساتھی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے دمشق لے گئے۔
12. وہاں ایک آدمی رہتا تھا جس کا نام حننیاہ تھا۔ وہ شریعت کا کٹر پیروکار تھا اور وہاں کے رہنے والے یہودیوں میں نیک نام۔
13. وہ آیا اور میرے پاس کھڑے ہو کر کہا، ’ساؤل بھائی، دوبارہ بینا ہو جائیں!‘ اُسی لمحے مَیں اُسے دیکھ سکا۔