33. یہودیوں نے سکندر کو آگے کر دیا۔ ساتھ ساتھ ہجوم کے کچھ لوگ اُسے ہدایات دیتے رہے۔ اُس نے ہاتھ سے خاموش ہو جانے کا اشارہ کیا تاکہ وہ اجلاس کے سامنے اپنا دفاع کرے۔
34. لیکن جب اُنہوں نے جان لیا کہ وہ یہودی ہے تو وہ تقریباً دو گھنٹوں تک چلّا کر نعرہ لگاتے رہے، ”اِفسس کی ارتمس دیوی عظیم ہے!“
35. آخرکار بلدیہ کا چیف سیکرٹری اُنہیں خاموش کرانے میں کامیاب ہوا۔ پھر اُس نے کہا، ”اِفسس کے حضرات، کس کو معلوم نہیں کہ اِفسس عظیم ارتمس دیوی کے مندر کا محافظ ہے! پوری دنیا جانتی ہے کہ ہم اُس کے اُس مجسمے کے نگران ہیں جو آسمان سے گر کر ہمارے پاس پہنچ گیا۔
36. یہ حقیقت تو ناقابلِ انکار ہے۔ چنانچہ لازم ہے کہ آپ چپ چاپ رہیں اور جلدبازی نہ کریں۔
37. آپ یہ آدمی یہاں لائے ہیں حالانکہ نہ تو وہ مندروں کو لُوٹنے والے ہیں، نہ اُنہوں نے دیوی کی بےحرمتی کی ہے۔
38. اگر دیمیتریُس اور اُس کے ساتھ والے دست کاروں کا کسی پر الزام ہے تو اِس کے لئے کچہریاں اور گورنر ہوتے ہیں۔ وہاں جا کر وہ ایک دوسرے سے مقدمہ لڑیں۔
39. اگر آپ مزید کوئی معاملہ پیش کرنا چاہتے ہیں تو اُسے حل کرنے کے لئے قانونی مجلس ہوتی ہے۔
40. اب ہم اِس خطرے میں ہیں کہ آج کے واقعات کے باعث ہم پر فساد کا الزام لگایا جائے گا۔ کیونکہ جب ہم سے پوچھا جائے گا تو ہم اِس قسم کے بےترتیب اور ناجائز اجتماع کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکیں گے۔“
41. یہ کہہ کر اُس نے اجلاس کو برخاست کر دیا۔