32. تب بادشاہ نے کُوشی سے پُوچھا کیا وہ جوان ابی سلو م سلامت ہے؟کُوشی نے جواب دِیا کہ میرے مالِک بادشاہ کے دُشمن اور جِتنے تُجھے ضرر پُہنچانے کو تیرے خِلاف اُٹھیں وہ اُسی جوان کی طرح ہو جائیں۔
33. تب بادشاہ بُہت بے چَین ہو گیا اور اُس کوٹھری کی طرف جو پھاٹک کے اُوپر تھی روتا ہُؤا چلا اور چلتے چلتے یُوں کہتا جاتا تھا ہائے میرے بیٹے ابی سلو م! میرے بیٹے! میرے بیٹے ابی سلو م! کاش مَیں تیرے بدلے مَر جاتا! اَے ابی سلو م! میرے بیٹے! میرے بیٹے!