41. آفتاب کا جلال اَور ہے مہتاب کا جلال اَور ۔ سِتاروں کا جلال اَور کیونکہ سِتارے سِتارے کے جلال میں فرق ہے۔
42. مُردوں کی قِیامت بھی اَیسی ہی ہے ۔ جِسم فنا کی حالت میں بویا جاتا ہے اور بقا کی حالت میں جی اُٹھتا ہے۔
43. بے حُرمتی کی حالت میں بویا جاتا ہے اور جلال کی حالت میں جی اُٹھتا ہے ۔ کمزوری کی حالت میں بویا جاتا ہے اور قُوّت کی حالت میں جی اُٹھتا ہے۔
44. نفسانی جِسم بویا جاتا ہے اور رُوحانی جِسم جی اُٹھتا ہے ۔ جب نفسانی جِسم ہے تو رُوحانی جِسم بھی ہے۔
45. چُنانچہ لِکھا بھی ہے کہ پہلا آدمی یعنی آدم زِندہ نفس بنا ۔ پِچھلا آدم زِندگی بخشنے والی رُوح بنا۔
46. لیکن رُوحانی پہلے نہ تھا بلکہ نفسانی تھا ۔ اِس کے بعد رُوحانی ہُؤا۔
47. پہلا آدمی زمِین سے یعنی خاکی تھا ۔ دُوسرا آدمی آسمانی ہے۔
48. جَیسا وہ خاکی تھا وَیسے ہی اَور خاکی بھی ہیں اور جَیسا وہ آسمانی ہے وَیسے ہی اَور آسمانی بھی ہیں۔
49. اور جِس طرح ہم اِس خاکی کی صُورت پر ہُوئے اُسی طرح اُس آسمانی کی صُورت پر بھی ہوں گے۔
50. اَے بھائِیو! میرا مطلَب یہ ہے کہ گوشت اور خُون خُدا کی بادشاہی کے وارِث نہیں ہو سکتے اور نہ فنا بقا کی وارِث ہو سکتی ہے۔
51. دیکھو مَیں تُم سے بھید کی بات کہتا ہُوں ۔ ہم سب تو نہیں سوئیں گے مگر سب بدل جائیں گے۔
52. اور یہ ایک دَم میں ۔ ایک پَل میں ۔ پِچھلا نرسِنگا پُھونکتے ہی ہو گا کیونکہ نرسِنگا پُھونکا جائے گا اور مُردے غَیرفانی حالت میں اُٹھیں گے اور ہم بدل جائیں گے۔
53. کیونکہ ضرُور ہے کہ یہ فانی جِسم بقا کا جامہ پہنے اور یہ مَرنے والا جِسم حیاتِ ابدی کا جامہ پہنے۔
54. اور جب یہ فانی جِسم بقا کا جامہ پہن چُکے گا اور یہ مَرنے والا جِسم حیاتِ ابدی کا جامہ پہن چُکے گا تو وہ قَول پُورا ہو گا جو لِکھا ہے کہ مَوت فتح کا لُقمہ ہو گئی۔
55. اَے مَوت تیری فتح کہاں رہی؟اَے مَوت تیرا ڈنک کہاں رہا؟۔
56. مَوت کا ڈنک گُناہ ہے اور گُناہ کا زور شرِیعت ہے۔
57. مگر خُدا کا شُکر ہے جو ہمارے خُداوند یِسُو ع مسِیح کے وسِیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے۔
58. پس اَے میرے عزِیز بھائِیو! ثابِت قدم اور قائِم رہو اور خُداوند کے کام میں ہمیشہ افزایش کرتے رہو کیونکہ یہ جانتے ہو کہ تُمہاری مِحنت خُداوند میں بے فائِدہ نہیں ہے۔