4. وہ مغرُور ہے اور کُچھ نہیں جانتا بلکہ اُسے بحث اور لفظی تکرار کرنے کا مرض ہے ۔ جِن سے حَسد اور جھگڑے اور بَدگوئِیاں اور بدگُمانِیاں۔
5. اور اُن آدمِیوں میں ردّ و بدل پَیدا ہوتا ہے جِن کی عقل بِگڑ گئی ہے اور وہ حق سے محرُوم ہیں اور دِین داری کو نفع ہی کا ذرِیعہ سمجھتے ہیں۔
6. ہاں دِین داری قناعِت کے ساتھ بڑے نفع کا ذرِیعہ ہے۔
7. کیونکہ نہ ہم دُنیا میں کُچھ لائے اور نہ کُچھ اُس میں سے لے جا سکتے ہیں۔
8. پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اُسی پر قناعِت کریں۔
9. لیکن جو دَولت مَند ہونا چاہتے ہیں وہ اَیسی آزمایش اور پَھندے اور بُہت سی بے ہُودہ اور نُقصان پُہنچانے والی خواہِشوں میں پھنستے ہیں جو آدمِیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غَرق کر دیتی ہیں۔
10. کیونکہ زَر کی دوستی ہر قِسم کی بُرائی کی جڑ ہے جِس کی آرزُو میں بعض نے اِیمان سے گُمراہ ہو کر اپنے دِلوں کو طرح طرح کے غَموں سے چَھلنی کر لِیا۔
11. مگر اَے مردِ خُدا! تُو اِن باتوں سے بھاگ اور راست بازی ۔ دِین داری ۔ اِیمان ۔ مُحبّت ۔ صبر اور حِلم کا طالِب ہو۔
12. اِیمان کی اَچھّی کُشتی لڑ ۔ اُس ہمیشہ کی زِندگی پر قبضہ کر لے جِس کے لِئے تُو بُلایا گیا تھا اور بُہت سے گواہوں کے سامنے اچھّا اِقرار کِیا تھا۔
13. مَیں اُس خُدا کو جو سب چِیزوں کو زِندہ کرتا ہے اور مسِیح یِسُوع کو جِس نے پُنطیُس پِیلاطُس کے سامنے اچھّا اِقرار کِیا تھا گواہ کر کے تُجھے تاکِید کرتا ہُوں۔
14. کہ ہمارے خُداوند یِسُوع مسِیح کے اُس ظہُور تک حُکم کو بے داغ اور بے اِلزام رکھ۔
15. جِسے وہ مُناسِب وقت پر نُمایاں کرے گا جو مُبارک اور واحِد حاکِم ۔ بادشاہوں کا بادشاہ اور خُداوندوں کا خُداوند ہے۔