18. کوئی اُسے مُجھ سے چِھینتا نہیں بلکہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہُوں ۔ مُجھے اُس کے دینے کا بھی اِختیار ہے اور اُسے پِھر لینے کا بھی اِختیار ہے ۔ یہ حُکم میرے باپ سے مُجھے مِلا۔
19. اِن باتوں کے سَبَب سے یہُودِیوں میں پِھر اِختلاف ہُؤا۔
20. اُن میں سے بُہتیرے تو کہنے لگے کہ اُس میں بدرُوح ہے اور وہ دِیوانہ ہے ۔ تُم اُس کی کیوں سُنتے ہو؟۔
21. اَوروں نے کہا یہ اَیسے شخص کی باتیں نہیں جِس میں بدرُوح ہو ۔ کیا بدرُوح اندھوں کی آنکھیں کھول سکتی ہے؟۔
22. یروشلِیم میں عِیدِ تجدِید ہُوئی اور جاڑے کا مَوسم تھا۔
23. اور یِسُو ع ہَیکل کے اندر سُلیمانی برآمدہ میں ٹہل رہا تھا۔
24. پس یہُودِیوں نے اُس کے گِرد جمع ہو کر اُس سے کہا تُو کب تک ہمارے دِل کو ڈانوانڈول رکھّے گا؟ اگر تُو مسِیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے۔
25. یِسُو ع نے اُنہیں جواب دِیا کہ مَیں نے تو تُم سے کہہ دِیا مگر تُم یقِین نہیں کرتے ۔ جو کام مَیں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہُوں وُہی میرے گواہ ہیں۔
26. لیکن تُم اِس لِئے یقِین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہیں ہو۔
27. میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں اور مَیں اُنہیں جانتا ہُوں اور وہ میرے پِیچھے پِیچھے چلتی ہیں۔
28. اور میں اُنہیں ہمیشہ کی زِندگی بخشتا ہُوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چِھین نہ لے گا۔
29. میرا باپ جِس نے مُجھے وہ دی ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی اُنہیں باپ کے ہاتھ سے نہیں چِھین سکتا۔