9. اِس لِئے اِنصاف ہم سے دُور ہے اور صداقت ہمارے نزدِیک نہیں آتی ۔ ہم نُور کا اِنتظار کرتے ہیں پر دیکھو تارِیکی ہے اور رَوشنی کا پر اندھیرے میں چلتے ہیں۔
10. ہم دِیوار کو اندھے کی طرح ٹٹولتے ہیں ۔ ہاں یُوں ٹٹولتے ہیں کہ گویا ہماری آنکھیں نہیں ۔ ہم دوپہر کو یُوں ٹھوکرکھاتے ہیں گویا رات ہو گئی ۔ ہم تندرُستوں کے درمِیان گویا مُردہ ہیں۔
11. ہم سب کے سب رِیچھوں کی مانِند غُرّاتے ہیں اور کبُوتروں کی طرح کُڑھتے ہیں ۔ ہم اِنصاف کی راہ تکتے ہیں پر وہ کہِیں نہیں اور نجات کے مُنتظِر ہیں پر وہ ہم سے دُورہے۔