16. پس ابرہا م اور اُس کی نسل سے وعدے کِئے گئے ۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ نسلوں سے ۔ جَیسا بُہتوں کے واسطے کہا جاتا ہے بلکہ جَیسا ایک کے واسطے کہ تیری نسل کو اور وہ مسِیح ہے۔
17. میرا یہ مطلَب ہے کہ جِس عہد کی خُدا نے پہلے سے تصدِیق کی تھی اُس کو شرِیعت چار سَو تِیس برس کے بعد آ کر باطِل نہیں کر سکتی کہ وہ وعدہ لاحاصِل ہو۔
18. کیونکہ اگر مِیراث شرِیعت کے سبب سے مِلی ہے تو وعدہ کے سبب سے نہ ہُوئی مگر ابرہا م کو خُدا نے وعدہ ہی کی راہ سے بخشی۔
19. پس شرِیعت کیا رہی؟ وہ نافرمانِیوں کے سبب سے بعد میں دی گئی کہ اُس نسل کے آنے تک رہے جِس سے وعدہ کِیا گیا تھا اور وہ فرِشتوں کے وسِیلہ سے ایک درمِیانی کی معرفت مُقرّر کی گئی۔
20. اب درمِیانی ایک کا نہیں ہوتا مگر خُدا ایک ہی ہے۔
21. پس کیا شرِیعت خُدا کے وعدوں کے خِلاف ہے؟ ہرگِز نہیں! کیونکہ اگر کوئی اَیسی شرِیعت دی جاتی جو زِندگی بخش سکتی تو البتّہ راست بازی شرِیعت کے سبب سے ہوتی۔
22. مگر کِتابِ مُقدّس نے سب کو گُناہ کا ماتحت کر دِیا تاکہ وہ وعدہ جو یِسُو ع مسِیح پر اِیمان لانے پر مَوقُوف ہے اِیمان داروں کے حق میں پُورا کِیا جائے۔
23. اِیمان کے آنے سے پیشتر شرِیعت کی ماتحتی میں ہماری نِگہبانی ہوتی تھی اور اُس اِیمان کے آنے تک جو ظاہِر ہونے والا تھا ہم اُسی کے پابند رہے۔
24. پس شرِیعت مسِیح تک پُہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی تاکہ ہم اِیمان کے سبب سے راست باز ٹھہریں۔
25. مگر جب اِیمان آ چُکا تو ہم اُستاد کے ماتحت نہ رہے۔
26. کیونکہ تُم سب اُس اِیمان کے وسِیلہ سے جو مسِیح یِسُو ع میں ہے خُدا کے فرزند ہو۔
27. اور تُم سب جِتنوں نے مسِیح میں شامِل ہونے کا بپتِسمہ لِیا مسِیح کو پہن لِیا۔
28. نہ کوئی یہُودی رہا نہ یُونانی۔ نہ کوئی غُلام نہ آزاد ۔ نہ کوئی مَرد نہ عَورت کیونکہ تُم سب مسِیح یِسُو ع میں ایک ہو۔
29. اور اگر تُم مسِیح کے ہو تو ابرہا م کی نسل اور وعدہ کے مُطابِق وارِث ہو۔