17. تاکہ جو یسعیا ہ نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پُورا ہو کہ اُس نے آپ ہماری کمزورِیاں لے لِیں اور بِیمارِیاں اُٹھا لِیں۔
18. جب یِسُو ع نے اپنے گِرد بُہت سی بِھیڑ دیکھی تو پار چلنے کا حُکم دِیا۔
19. اور ایک فقِیہہ نے پاس آ کر اُس سے کہا اَے اُستاد جہاں کہِیں تُو جائے گامَیں تیرے پِیچھے چلُوں گا۔
20. یِسُو ع نے اُس سے کہا کہ لومڑِیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرِندوں کے گھونسلے مگر اِبنِ آدم کے لِئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں۔
21. ایک اَور شاگِرد نے اُس سے کہا اَے خُداوند مُجھے اِجازت دے کہ پہلے جا کر اپنے باپ کو دفن کرُوں۔
22. یِسُوع نے اُس سے کہا تُو میرے پِیچھے چل اور مُردوں کو اپنے مُردے دفن کرنے دے۔
23. جب وہ کشتی پر چڑھا تو اُس کے شاگِرد اُس کے ساتھ ہو لِئے۔
24. اور دیکھو جِھیل میں اَیسا بڑا طُوفان آیا کہ کشتی لہروں میں چُھپ گئی مگر وہ سوتا تھا۔
25. اُنہوں نے پاس آ کر اُسے جگایا اور کہا اَے خُداوند ہمیں بچا ! ہم ہلاک ہُوئے جاتے ہیں۔
26. اُس نے اُن سے کہا اَے کم اِعتقادو ! ڈرتے کیوں ہو؟ تب اُس نے اُٹھ کر ہوا اور پانی کو ڈانٹا اور بڑا امَن ہو گیا۔
27. اور لوگ تعجُّب کر کے کہنے لگے یہ کِس طرح کا آدمی ہے کہ ہوا اور پانی بھی اِس کا حُکم مانتے ہیں؟۔
28. جب وہ اُس پار گدرِینِیو ں کے مُلک میں پُہنچا تو دو آدمی جِن میں بدرُوحیں تِھیں قبروں سے نِکل کر اُس سے مِلے ۔ وہ اَیسے تُند مِزاج تھے کہ کوئی اُس راستہ سے گُذر نہیں سکتا تھا۔
29. اور دیکھو اُنہوں نے چِلاّ کر کہا اَے خُدا کے بیٹے ہمیں تُجھ سے کیا کام؟ کیا تُو اِس لِئے یہاں آیا ہے کہ وقت سے پہلے ہمیں عذاب میں ڈالے؟۔
30. اُن سے کُچھ دُور بُہت سے سُورٔوں کا غول چر رہا تھا۔
31. پس بدرُوحوں نے اُس کی مِنّت کر کے کہا کہ اگر تُو ہم کو نِکالتا ہے تو ہمیں سُورٔوں کے غول میں بھیج دے۔
32. اُس نے اُن سے کہا جاؤ ۔ وہ نِکل کر سُورٔوں کے اندرچلی گئِیں اور دیکھو سارا غول کڑاڑے پر سے جھپٹ کر جِھیل میں جا پڑا اور پانی میں ڈُوب مَرا۔