9. عقلمندوں نے جواب دِیا کہ شاید ہمارے تُمہارے دونوں کے لِئے کافی نہ ہو ۔ بِہتر یہ کہ بیچنے والوں کے پاس جا کر اپنے واسطے مول لے لو۔
10. جب وہ مول لینے جا رہی تِھیں تو دُلہا آ پُہنچا اور جو تیّار تِھیں وہ اُس کے ساتھ شادی کے جشن میں اندر چلی گئِیں اور دروازہ بند ہو گیا۔
11. پِھر وہ باقی کُنوارِیاں بھی آئِیں اور کہنے لگِیں اَے خُداوند! اَے خُداوند! ہمارے لِئے دروازہ کھول دے۔
12. اُس نے جواب میں کہا مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ مَیں تُم کو نہیں جانتا۔
13. پس جاگتے رہو کیونکہ تُم نہ اُس دِن کو جانتے ہو نہ اُس گھڑی کو۔
14. کیونکہ یہ اُس آدمی کا سا حال ہے جِس نے پردیس جاتے وقت اپنے گھر کے نَوکروں کو بُلا کر اپنا مال اُن کے سپُرد کِیا۔
15. اور ایک کو پانچ توڑے دِئے ۔ دُوسرے کو دو اور تِیسرے کو ایک یعنی ہر ایک کو اُس کی لِیاقت کے مُطابِق دِیا اور پردیس چلا گیا۔
16. جِس کو پانچ توڑے مِلے تھے اُس نے فوراً جا کر اُن سے لین دین کِیا اور پانچ توڑے اَور پَیدا کر لِئے۔
17. اِسی طرح جِسے دو مِلے تھے اُس نے بھی دو اَور کمائے۔
18. مگر جِس کو ایک مِلا تھا اُس نے جا کر زمِین کھودی اور اپنے مالِک کا رُوپیَہ چُھپا دِیا۔
19. بڑی مُدّت کے بعد اُن نَوکروں کا مالِک آیا اور اُن سے حِساب لینے لگا۔
20. جِس کو پانچ توڑے مِلے تھے وہ پانچ توڑے اَور لے کر آیا اور کہا اَے خُداوند! تُو نے پانچ توڑے مُجھے سپُرد کِئے تھے ۔ دیکھ مَیں نے پانچ توڑے اَور کمائے۔
21. اُس کے مالِک نے اُس سے کہا اَے اچّھے اور دِیانتدار نَوکر شاباش! تُو تھوڑے میں دِیانتدار رہا ۔ مَیں تُجھے بُہت چِیزوں کا مُختار بناؤں گا ۔ اپنے مالِک کی خُوشی میں شرِیک ہو۔