5. پِھراُس نے دوپہر اور تِیسرے پہر کے قرِیب نِکل کر وَیسا ہی کِیا۔
6. اور کوئی ایک گھنٹہ دِن رہے پِھر نِکل کر اَوروں کو کھڑے پایا اور اُن سے کہا تُم کیوں یہاں تمام دِن بیکار کھڑے رہے؟۔
7. اُنہوں نے اُس سے کہا اِس لِئے کہ کِسی نے ہم کو مزدُوری پر نہیں لگایا ۔ اُس نے اُن سے کہا تُم بھی تاکِستان میں چلے جاؤ۔
8. جب شام ہُوئی تو تاکِستان کے مالِک نے اپنے کارِندہ سے کہا کہ مزدُوروں کو بُلا اور پچھلوں سے لے کر پہلوں تک اُن کی مزدُوری دے دے۔
9. جب وہ آئے جو گھنٹہ بھر دِن رہے لگائے گئے تھے تو اُن کو ایک ایک دِینار مِلا۔
10. جب پہلے مزدُور آئے تو اُنہوں نے یہ سمجھا کہ ہم کوزِیادہ مِلے گا اور اُن کوبھی ایک ہی ایک دِینار مِلا۔
11. جب مِلا تو گھر کے مالِک سے یہ کہہ کر شِکایت کرنے لگے کہ۔
12. اِن پچھلوں نے ایک ہی گھنٹہ کام کِیا ہے اور تُو نے اِن کو ہمارے برابر کر دِیا جِنہوں نے دِن بھر کا بوجھ اُٹھایا اور سخت دُھوپ سہی۔
13. اُس نے جواب دے کر اُن میں سے ایک سے کہا مِیاں میں تیرے ساتھ بے اِنصافی نہیں کرتا۔ کیا تیرا مُجھ سے ایک دِینار نہیں ٹھہرا تھا؟۔
14. جو تیرا ہے اُٹھا لے اور چلا جا ۔ میری مرضی یہ ہے کہ جِتنا تُجھے دیتا ہُوں اِس پِچھلے کو بھی اُتنا ہی دُوں۔
15. کیا مُجھے روا نہیں کہ اپنے مال سے جو چاہُوں سو کرُوں؟ یا تُو اِس لِئے کہ مَیں نیک ہُوں بُری نظر سے دیکھتا ہے؟۔
16. اِسی طرح آخِر اوّل ہو جائیں گے اور اوّل آخِر۔
17. اوریروشلِیم جاتے ہُوئے یِسُو ع بارہ شاگِردوں کو الگ لے گیا اور راہ میں اُن سے کہا۔
18. دیکھو ہم یروشلِیم کو جاتے ہیں اور اِبنِ آدم سردار کاہِنوں اور فقِیہوں کے حوالہ کِیا جائے گا اور وہ اُس کے قتل کا حُکم دیں گے۔
19. اور اُسے غَیر قَوموں کے حوالہ کریں گے تاکہ وہ اُسے ٹھٹّھوں میں اُڑائیں اور کوڑے ماریں اور مصلُوب کریں اور وہ تِیسرے دِن زِندہ کِیا جائے گا۔