4. پطرس نے یِسُو ع سے کہا اَے خُداوند ہمارا یہاں رہنا اچّھا ہے ۔ مرضی ہو تو مَیں یہاں تِین ڈیرے بناؤں ۔ ایک تیرے لِئے ۔ ایک مُوسیٰ کے لِئے اور ایک ایلیّا ہ کے لِئے۔
5. وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ دیکھو ایک نُورانی بادل نے اُن پر سایہ کر لِیا اور اُس بادل میں سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جِس سے مَیں خُوش ہُوں اِس کی سُنو۔
6. شاگِرد یہ سُن کر مُنہ کے بَل گِرے اور بُہت ڈر گئے۔
7. یِسُو ع نے پاس آ کر اُنہیں چُھؤا اور کہا اُٹھو ۔ ڈرو مت۔
8. جب اُنہوں نے اپنی آنکھیں اُٹھائِیں تو یِسُو ع کے سِوا اَور کِسی کو نہ دیکھا۔
9. جب وہ پہاڑ سے اُتر رہے تھے تو یِسُو ع نے اُنہیں یہ حُکم دِیا کہ جب تک اِبنِ آدم مُردوں میں سے نہ جی اُٹھے جو کُچھ تُم نے دیکھا ہے کِسی سے اُس کا ذِکر نہ کرنا۔
10. شاگِردوں نے اُس سے پُوچھا کہ پِھر فقِیہہ کیوں کہتے ہیں کہ ایلیّا ہ کا پہلے آنا ضرُور ہے؟۔
11. اُس نے جواب میں کہا ایلیّا ہ البتّہ آئے گااور سب کُچھ بحال کرے گا۔
12. لیکن مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ ایلیّاہ تو آ چُکا اور اُنہوں نے اُسے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اُس کے ساتھ کِیا ۔ اِسی طرح اِبنِ آدم بھی اُن کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھائے گا۔
13. تب شاگِرد سمجھ گئے کہ اُس نے اُن سے یُوحنّا بپتِسمہ دینے والے کی بابت کہا ہے۔
14. اور جب وہ بِھیڑ کے پاس پُہنچے تو ایک آدمی اُس کے پاس آیا اور اُس کے آگے گُھٹنے ٹیک کر کہنے لگا۔
15. اَے خُداوند میرے بیٹے پر رحم کر کیونکہ اُس کو مِرگی آتی ہے اور وہ بُہت دُکھ اُٹھاتا ہے ۔ اِس لِئے کہ اکثر آگ اور پانی میں گِر پڑتا ہے۔