10. اور اُنہوں نے ہماری بڑی عِزّت کی اور چلتے وقت جو کُچھ ہمیں درکار تھا جہاز پر رکھ دِیا۔
11. تِین مہِینے کے بعد ہم اِسکندرِ یہ کے ایک جہاز پر روانہ ہُوئے جو جاڑے بھر اُس ٹاپُو میں رہا تھا اور جِس کا نِشان دِیُسکُور ی تھا۔
12. اور سرَکُوسہ میں جہاز ٹھہرا کر تِین دِن رہے۔
13. اور وہاں سے پھیر کھا کر ریگِیُم میں آئے اور ایک روز بعد دکھّنا چلی تو دُوسرے دِن پُتیُلِی میں آئے۔
14. وہاں ہم کو بھائی مِلے اور اُن کی مِنّت سے ہم سات دِن اُن کے پاس رہے اور اِسی طرح رُومہ تک گئے۔
15. وہاں سے بھائی ہماری خبر سُن کر اَپّیُس کے چَوک اور تِین سرای تک ہمارے اِستِقبال کو آئے اور پَولُس نے اُنہیں دیکھ کر خُدا کا شُکر کِیا اور اُس کی خاطِر جمع ہُوئی۔
16. جب ہم رُومہ میں پُہنچے تو پَولُس کو اِجازت ہُوئی کہ اکیلا اُس سِپاہی کے ساتھ رہے جو اُس پر پہرا دیتا تھا۔
17. تِین روز کے بعد اَیسا ہُؤا کہ اُس نے یہُودِیوں کے رئِیسوں کو بُلوایا اور جب جمع ہو گئے تو اُن سے کہا اَے بھائِیو! ہر چند مَیں نے اُمّت کے اور باپ دادا کی رسموں کے خِلاف کُچھ نہیں کِیا تَو بھی یروشلِیم سے قَیدی ہو کر رُومِیوں کے ہاتھ حوالہ کِیا گیا۔
18. اُنہوں نے میری تحقِیقات کر کے مُجھے چھوڑ دینا چاہا کیونکہ میرے قتل کا کوئی سبب نہ تھا۔
19. مگر جب یہُودِیوں نے مُخالِفت کی تو مَیں نے لاچار ہو کر قَیصر کے ہاں اپِیل کی مگر اِس واسطے نہیں کہ اپنی قَوم پر مُجھے کُچھ اِلزام لگانا تھا۔
20. پس اِس لِئے مَیں نے تُمہیں بُلایا ہے کہ تُم سے مِلُوں اور گُفتگُو کرُوں کیونکہ اِسرائیل کی اُمّید کے سبب سے مَیں اِس زنجِیر سے جکڑا ہُؤا ہُوں۔
21. اُنہوں نے اُس سے کہا نہ ہمارے پاس یہُودیہ سے تیرے بارے میں خَط آئے نہ بھائِیوں میں سے کِسی نے آ کر تیری کُچھ خبر دی نہ بُرائی بیان کی۔
22. مگر ہم مُناسِب جانتے ہیں کہ تُجھ سے سُنیں کہ تیرے خیالات کیا ہیں کیونکہ اِس فِرقہ کی بابت ہم کو معلُوم ہے کہ ہر جگہ اِس کے خِلاف کہتے ہیں۔
23. اور وہ اُس سے ایک دِن ٹھہرا کر کثرت سے اُس کے ہاں جمع ہُوئے اور وہ خُدا کی بادشاہی کی گواہی دے دے کر اور مُوسیٰ کی تَورَیت اور نبِیوں کے صحِیفوں سے یِسُوع کی بابت سمجھا سمجھا کر صُبح سے شام تک اُن سے بیان کرتا رہا۔
24. اور بعض نے اُس کی باتوں کو مان لِیا اور بعض نے نہ مانا۔